پچھلی گرمیوں کا آخری مہینہ میں نے اپنے بھانجے جاوید کے گھر گزارا- اُس کے گھر میں ایک بڑا اچھا سوئمنگ پول ہے۔اُس کا ایک چھوٹا بیٹا ہے۔اُس کے بیٹے کا ایک چھوٹا کُتّا "جیکی" ہے- میں کُتّوں بارے میں چونکہ زیادہ نہیں جانتا اس لیے اتنا سمجھ سکا ہوں کہ وہ چھوٹے قد کا نہایت محبّت کرنے والا اور تیزی سے دُم ہلانے والا کُتّا ہے-جیکی کی یہ کیفیت ہے کہ وہ سارا دن کھڑکی کی سل پر اپنے دونوں پنجے رکھ کر کھڑکی سے باہر دیکھتا رہتا ہے اور جب آوارہ لڑکے اسے پتھر مار کر گُزرتے ہیں تو وہ بھونکتا ہے- جب آئس کریم کی گاڑی آتی ہے تو اُس کا باجا سُنتے ہی وہ اپنی کٹی ہوئی دُم بھی "گنڈیری“ کی طرح ہلاتا ہے اور ساتھ بھونکنے کے انداز میں " چوس چوس“ بھی کرتا ہے (شاید اُسکی آرزو ہو کہ مجھے اس سے کچھ ملے گا)- پھر جب غبّارے بیچنے والا آتا ہے تو وہ اُس کےلئے بھی ویسا ہی پریشان ہوتا ہے اور وہ منظر نامہ اُس کی نگاہوں کے سامنے سے گُزرتا رہتا ہے- پھر جس وقت سکول سے اُ س کا محبوب مالک توفیق آتا ہے تو پھر وہ سل چھوڑ کر بھاگتا ہےاور جا کر اُس کی ٹانگوں سے چمٹتا ہے۔
شام کے وقت جب وہ سوئمنگ پول میں نہاتے ہیں اور جب اُس کُتّے کا مالک، اُس کا ساتھی توفیق چھلانگ لگاتا ہے تو وہ (جیکی) خود تو اندر نہیں جاتا، لیکن جیسے جیسے وہ تالاب میں تیرتا ہوا آگے جاتا ہے- جیکی بھی اُس کے ساتھ آگے بھاگتا ہے اور تالاب کے اِرد گِرد " پھرکی“ کی طرح چکر لگاتا ہے، غرّاتا ہے، بھونکتا ہے، پھسلتا ہے اور پانی کے سبب دُور تک پھسلتا جاتا ہے- میں اس قیام کے سارے عرصہ میں اسے دیکھتا رہا کہ یہ کیا کرتا ہے- پھر میں نے بچّوں کو اکٹّھا کرکے ایک دن کہا کہ آؤ اس جیکی کو سمجھائیں کہ تم تو اس طرح بھاگ بھاگ کے ہلکان ہو جاؤ گے، زندگی برباد کر لو گے- بچّوں نے کہا اچھا دادا- اور اُن سب نے جیکی کو بُلا کر بٹھایا اور اُس سے کہا کہ جیکی میاں دادا کی بات سُنو-میں نے جیکی سے کہا، دیکھو وہ (توفیق) تو تیرتا ہے۔ وہ تو انجوائے کرتا ہے۔ تم خواہ مخواہ بھاگتے ہو،پھسلتے ہو اور اپنا مُنہ تُڑواتے ہو۔ تم اس عادت کو چھوڑ دو لیکن وہ یہ بات سمجھا نہیں- اگلے روز پھر اُس نے ایسے ہی کیا، جب اُس کو میں سمجھا چکا اور رات آئی اور میں لیٹا لیکن ساری رات کروٹیں بدلنے کے بعد بھی مجھے نیند نہ آئی تو میں نے اپنا سر دیوار کے ساتھ لگا کر یہ سوچنا شروع کیا کہ میرے بیٹے نے جو سی ایس ایس کا امتحان دیا ہے کیا وہ اس میں سے پاس ہو جائے گا؟ پوتا جو امریکہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا ہے کیا اُس کو ورلڈ بینک میں کوئی نوکری مل جائے گی؟ ہمارے اوپر جو مقدّمہ ہے، کیا اُس کا فیصہ ہمارے حق میں ہو جائے گا اور وہ انعامی بانڈ جو ہم نے خریدا ہے،وہ نکل آئے گا کہ نہیں؟ میری اتنی ساری بے چینی اور یہ سب کچھ جو مل کر میری Desires، میری آرزوئیں، میری میری تمنائیں اور خواہش گڈمڈ ہوگئیں تو میں نے کہا کہ میں بھی کسی صورت میں جیکی“ سے کم نہیں ہوں۔ جس طرح وہ بے چین ہے، جیسے وہ تڑپتا ہے، جیسے وہ نا سمجھی کے عالم میں چکر لگاتا ہے، تو حالات کے تالاب کے اِرد گِرد میں بھی چکر لگاتا ہوں تو کیا میں اس کو کسی طرح روک سکتا ہوں، کیا میں ایسے سیدھا چل سکتا ہوں جیسے سیدھا چلنے کا مجھے حُکم دیا گیا ہے- میں جیسے پہلے بھی ذکر کیا کرتا ہوں، میں نے اپنے بابا جی سے پوچھا کہ جی یہ کیوں بے چینی ہے، کیوں اتنی پریشانی ہے، کیوں ہم سکونِ قلب کے ساتھ اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتےہیں تو اُنہوں نے کہا کہ دیکھو تم اپنی پریشانی کی پوٹلیاں اپنے سامنے نہ رکھا کرو، اُنہیں خُدا کے پاس لے جایا کرو، وہ ان کو حل کردے گا- تم انہیں زور لگا کر خود حل کرنے کی کوشش کرتے ہو، لیکن تم انہیں حل نہیں کر سکو گے
زاویہ 2
مصنف اشفاق احمد
مصنف اشفاق احمد
No comments:
Post a Comment